خواتین کا عالمی دن

Share on facebook
Facebook
Share on twitter
Twitter
Share on whatsapp
WhatsApp
Share on print
Print
Share on email
Email
Share on telegram
Telegram

آج خواتین کا عالمی دن ہے ۔
پاکستانی خاتون ہونے کے ناطے میں اپنی پاکستانی بہنوں ، ماؤں ، بیٹیوں کے لئے اور تو کچھ نہ کر سکی مگر اتنا ضرور کر وں گی کہ پچھلے سال والے عورت مارچ کے مظاہروں سے جو دکھ اور دلی تکلیف پہنچی اس کا اس سال مداوا کر لوں ۔
ماروی سرمد کا مقابلہ گالی گلوچ نکالے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چائیے ۔
اگر ماروی کے پاس اظہار رائے کی آزادی ہے تو یہی آزادی ہر پاکستانی کے پاس ہے ۔
اور آج میں آپ کو دکھانا چاہتی ہوں کہ میری جیسی ان بہنوں ، بیٹیوں اور بزرگ عورتوں نے کیسے طریقے اور سلیقے سے تصویر کا صاف اور روشن رخ دکھایا ہے ۔ کیونکہ یہی ان کے گھروں کی تربیت نے انہیں سکھایا ہے ۔
یہ ڈھول بجانے اور آزادی کے نعرے لگانے نہیں آئ ہیں ۔
یہ “سب ٹھیک ہے “ کہنے بھی نہیں نکلی ہیں ۔ یہ ادراک رکھتی ہیں کہ پاکستانی عورت کو ابھی بہت آگے جانا ہے اپنی ذات کو منوانے کا سفر طویل ہے ۔ ان میں اپنی تعلیم ، ضروریات ، کمائ اور دیگر کاموں کے لئے صبح کو گھر نکلنے والی عورتیں ہیں ۔ ہوس کی نظر کا شکار یہ بھی ہوتی ہیں ۔ خواہ باپردہ ہوں یا بے پردہ ، غلیظ جملوں اور گندی زبان یہ بھی بھگتتی ہیں اور ایسے میں اپنے کردار کی مضبوطی کو ثابت کرتی ہیں ۔ یہ اپنی حفاظت کرنا جانتی ہیں ۔
آج اگر ان کے ہاتھوں میں یہ بینرز نہ بھی ہوتے تب بھی یہ خاموشی سے سڑک کے کنارے اور پنڈال میں کھڑے ہوکے یہ پیغام دیتی نظر آرہی ہیں کہ آؤ مجھ سے سیکھو کہ عورت کی عزت کیسے کی جانی چائیے ۔
میری رہائش ریاض سعودی عرب میں ہے ۔ مجھے اوورسیز پاکستانی خواتین کی ایک بڑی محفل میں شرکت کا موقع ملا تو جتنی عورتوں سے میری ملاقات ہوئ سب ہی متوقع عورت مارچ پر اظہار خیال کر رہی تھیں ۔ پریشانی اور حیرت سے کہہ رہی تھیں کہ یہ پاکستانی عورت کی نمائندہ کب سے ہوگئ ہیں ؟ کیا کوئ پاکستانی لڑکی یا عورت ایسے غلیظ خیالات رکھ سکتی ہے ؟ ایسے ناروا مطالبات کر سکتی ہے؟؟؟؟
کیا یہ عورت ہے جو کہہ رہی ہے کہ میں آوارہ میں بدچلن ؟؟؟؟
میں نے ان سے کہا کہ میں صرف اتنا جانتی ہوں اور وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ مسلم ہو یا اقلیت کی نمائندہ، غریب ہو یا امیر ، ان پڑھ ہو یا تعلیم یافتہ ، ظالم ہو یا مظلوم لیکن پاکستانی عورت بدچلن اور آوارہ نہیں ہے ۔۔۔۔ اور نہ ہی اسے اس راستے کی طرف زبردستی کھینچنے والوں کی مراد پوری ہونے والی ہے ۔
مجھ سے اکثر نے پوچھا کہ کیا آٹھ مارچ ۲۰۱۹ کو لگنے والے نعروں جواب نہیں دینا چائیے ؟ جی ہاں ضرور دینا چائیے لیکن صبر سے ، شائستگی سے ، بھرپور آواز بن کے ، اپنے گھر اور خاندان کو مضبوط کرکے ، ان کی پوری حمایت کے ساتھ ۔۔۔ انہیں ساتھ ملا کر جواب دینا چائیے ۔
اور آج پورے ایک برس بعد سات اور آٹھ مارچ ۲۰۲۰ اسلام آباد،لاہور،
پشاور،کوئٹہ،کراچی،بدین،جیکب آباد،لاڑکانہ،فیصل آباد،گجرات،ساہیوال گجرانوالہ،گوجرہ،رحیم یار خان،مظفر گڑھ،بھاولپور،جھنگ،اوکاڑہ سب نے بھرپور جواب دیا ہے ۔
بڑی آہستگی ، بڑی شائستگی کے ساتھ ،
بینرز بھی تھے ، تقریر یں بھی تھیں ، کچھ مطالبات بھی تھے ، اپنے بچے اور بچیاں بھی ساتھ لائ تھیں ، اسلام آباد میں تو چھتریاں بھی لائ تھیں ۔ میڈیا کی ٹیم یک رنگی اسکارف سر پہ سجائے کوریج میں بھی مشغول تھی ۔ گویا نری گھر سے نہ نکل آئ تھیں بلکہ سالہاسال سے ٹیکنالوجی پر کام کرتی ہوئ ٹیم ساتھ لائ تھیں ۔
اور قصہ مختصر یہی بتانے یہی جتانے آئ تھیں کہ ہم کو بھی کسی نے پلیٹ میں رکھ کر حقوق پیش نہیں کئیے ہیں ،بلکہ ہم ہر شعبے میں محنت میں عظمت کے حصول پر یقین رکھنے والیاں ہیں ۔ ہم تعلیم ، معاش ، گھرداری ، ٹیکنالوجی ، میڈیا ، ادب ، صحافت جیسے شعبوں میں نمائندگی کی سیٹوں پر نہ صرف موجود ہیں بلکہ اپنے پورے پورے خاندانوں کی دیکھ ریکھ بھی ساتھ جاری ہے ۔ یہ وہ پاکستانی عورت ہے جس کو خود سے وابستہ مردوں کے کسی کام میں کوئ عار نہیں ہے ۔ جس کے لئے باپ اور سسر کی خدمت ، شوہر کی رفاقت ، بھائ کی محبت اس کا مان اور بیٹے کی کامیابی کی جدوجہد ہی میں ساری خوشیاں پنہاں ہیں ،۔

آج اسی عورت کی جھلک میڈیا کی یہ کلپس آپ کو دکھائیں گی ۔ فیصلہ اب آپ کے ہاتھ ہے ۔
آپ پاکستانی عورت کو کس روپ میں دیکھتے ہیں ؟ اور آپ کو ایک عام پاکستانی عورت کہاں کھڑی نظر آتی ہے ؟؟؟؟