ارے ارے یہ کیا کیا؟
“وہ بے بی کی ناک بہہ رہی تھی اور تو مجھے کچھ ملا نہیں ۔۔۔ تو “
تو میرا دوپٹہ لے کر آپ نے اس کی گیلی بہتی ناک پونچھ دی ۔۔ بھئ واہ ۔۔
میں نے مصنوعی غصہ دکھاتے ہوئے انہیں گھورا ۔جو اب اس کا گولہ بنا کر کمرے کے کونے میں پھینکنے کے لئے نشانہ لے رہے تھے ۔
“ بھئ اس کمرے میں ایک تمہارا دوپٹہ ہی ہے جو ملٹی پرپز چیز ہے ۔ ٹشو تو مجھے آج تک وقت پہ ملا ہی نہیں “
“نہیں جی ۔ بات دراصل یہ ہے کہ ٹشو تک پہنچنے کے لئے انسان کو اپنی کمر بستر سے اٹھانی پڑتی ہے اور قدموں کو بھی حرکت میں لانا ہوتا ہے ۔ اب اتنی محنت کون کرے بھلا ؟ پھر قریب ترین پڑا دوپٹہ ہی قربان کیا جاتا ہے ۔ “میں کیوں دوپٹے کی بے قدری کرنے پر چپ رہنے والی تھی ۔
ہماری منی نے کسمسانا شروع کیا اور پھر زور زور سے رونا بھی ۔ اس رات وہ ناک بند ہونے کی وجہ سے بار بار اٹھ جاتی اور دودھ بھی نہیں لے پارہی تھی ۔ میں نے الماری سے اپنا دوسرا دوپٹہ نکالا اور اپنے اورمنی کے وجود پر پھیلالیا ۔ منی جلد ہی سو گئ اور میں نیند کی وادیوں کے بجائے بچپن کی خوبصورت وادیوں میں سیر کو نکلی جہاں جا بجا آبشاریں جھرنے تھے اور پریاں
چہار سو رقص کرتی تھیں ۔ ہائے وہ کیا خوبصورت وادیاں تھیں ۔ بے فکری کے حسین لمحے تھے اور ماں باپ کی ٹھنڈی چھاؤں ۔
آج میاں صاحب کے منہ سے یہ بات سن کر کہ تمہارا دوپٹہ ہی واحد ملٹی پرپز چیز ہے ، میں مسکرادی میں تو اپنی امی جان کے دوپٹوں کی افادیت کی قائل تھی ہی ۔
میں ان کے سونے کا اطمنان کرکے چپکے سے اٹھی اور الماری کی اندر والی دراز کھول کر بیٹھ گئ ۔ ایک مانوس سی خوشبو میرے رگ و پے میں اتری اور میں نے آنکھیں موند لیں ۔
چھٹیوں میں ہماری پھو پھو کے تین بچے آسٹریلیا سے آتے تھے اور تایا کی دونوں بیٹیاں بھی چھٹیوں بھر ہمارے گھر ہی رہتی تھیں ۔ چھ سات بچے ایک گھر میں ہوں تو خاصا ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے مگر ہم سب کچھ تمیز دار واقع ہوئے تھے ۔ ہمارا ایک ہی پسندیدہ کھیل چھپن چھپائ تھا ۔ اور وہ بھی اس طرح کہ چور کی آنکھوں پہ دوپٹہ کس کر باندھتے اور اسے گول گھما کے چھوڑ دیتے ۔ اس کے بعد بے چارا گھنٹے تک ٹھوکریں اور امی ، تائ امی اور دادی کی ڈانٹیں کھاتا ۔ دوسرے تو جو دوپٹہ موقع پر میسر آتا وہ پکڑ لیتے تھے مگر میری چالاکی یہ ہوتی کہ امی کا ایک جالی دار دوپٹہ لاتی تھی جس میں سے خاصی دقت سے آر پار نظر آجاتا ۔ پھر ایک بار باجی نے میری چیٹنگ پکڑ لی تو یہ دوپٹہ چھپا دیا گیا ۔ آج بھی اس دوپٹے کی خوشبو اور اس سے چھن کر نظر آنے والے دھندلے سے مناظر دماغ کی سلیٹ پر محفوظ ہیں ۔ بھیا الماری پر چڑھنے کی کوشش کررہے ہیں ، امی کی ڈانٹ پڑی ، تو انہیں چپ رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے پردے کے پیچھے گئے پھر کچھ سوچ کر دوبارہ نکلے اور میرے عین پیچھے آگئے اب میرے ساتھ ساتھ جہاں میں جا رہی ہوں وہاں جا رہے ہیں ۔۔ میں بھی خوب ایکٹنگ کرتی اور اچانک لڑ کھڑا کر یا چوٹ کھا کر ان سے ٹکرا جاتی ۔ اور انہیں پکڑ لیتی ۔۔۔ اس منظر کو سوچتے ہوئے میرے لبوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں نمی در آئ ۔۔ میں نے امی کا دوپٹہ نکال کر پھیلایا اور پھر اس کو تہہ لگائ ۔۔۔ اسے موڑتے موڑتے امی کا نماز والا دوپٹہ ہاتھ آیا ۔
سفید براق چادر جس پر کروشیا کی کناری تھی ۔ جب امی اذان سن کر گیلے چہرے پر اسے لپیٹتیں اور آہستہ آہستہ کچھ منہ میں پڑھ رہی ہوتیں تو وہ مجھے کو ہستان کی پری لگتی تھیں ۔ جو راستہ بھول کر زمین پہ آگئ ہو ۔ مجھے اس دوپٹے کی خوشبو سے عشق تھا ۔ چوری چوری امی کی دراز کھول کے اسے سونگھتی تھی ۔ نہ جانے امی اس پر عطر لگاتی تھیں یا کیا بات تھی ۔ وہ ہمیشہ مہکتا تھا ۔ ایک بار شوق میں میں نے اسے لپیٹا اور ان کے تخت پر سجدے شروع کئیے ۔ پیچھے سے بھیا نے آکے مجھے بھوں کر دیا تو میں سر کے بل دوسری جانب لڑھک گئ ، چوٹ کو بھول بھال کر بھیا کے پیچھے بھاگی تو دوپٹے میں الجھ کے گری ۔ بھیا تو پکڑ میں نہ آۓ پر دوپٹہ ناس کرنے پر میری اور مجھے گرانے پر بھیا کی ٹھکائ ہوگئ ۔
امی کی کوئ تصویر ذہن کے پردے پر دوپٹے کے بغیر بنتی ہی نہیں ہے ۔ ہاں ایک بار یاد ہے کہ بھیا کرکٹ کھیلتے ہوئے کاک کی بال لگنے سے زخمی ہوئے ۔ جب وہ گھر آئے تو سر سے بہتا خون ان کی قمیض کو سرخ کر چکا تھا ۔ وہ چپکے سے غسل خانے میں گھسنا چاہتے تھے مگر میں نے چیخ مار دی اور امی بھاگتی آئیں ۔ جلدی میں انہوں نے اپنا دوپٹہ لیا اور پیشانی کو دھو کر کس کر باندھ دیا ۔ تھوڑی دیر میں وہ بھی سرخ تھا ۔ تب امی نے رکشہ منگوایا اور وہ دونوں کلینک گئے ۔ میں بہت خوفزدہ ہو گئ تھی ۔ جب بھیا ٹانکے لگوا کے واپس آئے تو مسکراتے ہوئے ایک تھیلا مجھے پکڑایا اور کہنے لگے “ یہ لو امی کی ایمرجنسی کٹ “
واقعی ماں کا دوپٹہ تو ملٹی پرپز ہی ہوتا ہے ۔ میرے میاں نے ٹھیک ہی کہا تھا ۔ میں نے تو ایک زمانے تک تولیہ استعمال نہیں کیا ۔ دراصل چھوٹے پن میں امی مجھے اپنے دوپٹے میں لپیٹ کر غسل خانے سے نکال لاتی تھیں ۔ پھر مجھے کمبل میں ڈال کر تولیہ کی ڈھنڈائ شروع کرتیں۔ تولیہ کے برآمد ہونے سے پہلے پہلے میں خشک ہو چکی ہوتی تھی ۔ پھر تو میں نے اس آسان حل کو معمول ہی بنا لیا ۔ وضو کے بعد ، روٹی پکانے سے پہلے ہاتھ دھوکر، چشمہ صاف کرنے کے لئے سب سے ہینڈی یہی ہوتا تھا ۔
ایک زمانے میں مجھے ڈر لگنے لگا تھا ۔ سونے لیٹوں تو کھلے دروازے سے کوئ آتا دکھائ دیتا ، اندھیرے کی جانب دیکھوں تو سائے نظر آتے تھے ، غسل خانے جانا ایک عذاب ہوتا تھا ۔ سوتے ہوئے امی کے پہلو میں گھسی رہتی ۔ تب امی نے یہ شروع کیا تھا کہ بھیا کو اسکول بھیجنے کے لئے بستر سے نکلتیں تو اپنے دوپٹے کا گولا سا بنا کر میری بانہوں میں کھونس جاتیں میں اسے لئے لئے آرام سے سوتی رہتی ۔ پھر یہ عادت ایسی بگڑی کہ ڈر تو عمر کے ساتھ ساتھ جاتا رہا مگر امی کا دوپٹہ میری کمزوری ہی بن گیا ۔ اسے لئے بنا نیند نہ آتی ۔ اکثر وہ دوپٹہ جو امی نے دن بھر پہنا ہوتا ، میں چپکے سے اس وقت اپنے قبضے میں کرتی جب وہ غسل خانے جاتیں ۔ وہ اکثر دوپٹہ بستر پر رکھ کے جاتی تھیں ۔ اور جب وہ غائب ملتا تو بے رنگا دوپٹہ پہن کر وہ مجھے گھورتیں ۔ میں کہتی میں کیا کروں اس میں سے مجھے آپ کی خوشبو آتی ہے ۔
امی کی خوشبو ۔۔۔۔ اس احساس کے آتے ہی میرے آنسو بھل بھل بہنے لگے ۔ امی کے جانے کے ساتھ ہی ان کی خوشبو بھی چلی گئ ۔ میں نے امی کے ملٹی پرپز دوپٹے آج بھی سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں ۔ جب وہ بہت یاد آتی ہیں تو یہی اندر والی دراز کھول کر بیٹھ جاتی ہوں ۔
ایک امی کا نماز والا ہے سفید براق ، کروشیا کی کناری والا
اور دوسرا سرخ گوٹے کی کناری والا ہے جو انہوں نے اپنی شادی کے دن پہنا تھا اور تیسرا وہ والا ہے جس کو بھیا کے سر پہ باندھا تھا پٹی بنا کے ۔ میں ان تینوں کو باری باری سونگھتی ہوں ۔ اور امی کی خوشبو اپنے تن من میں اتار لیتی ہوں ۔
رات گہری ہوگئ ہے اور میری ننی منی گڑیا پھر اٹھ گئ ہے ۔
میں تینوں دوپٹے احتیاط سے رکھتی اٹھ گئ ۔
شائد منی کو بھی دوبارہ نیند کی وادی میں جانے کے لئے میرے دوپٹے کی خوشبو چائیے ۔ میں اپنے دوپٹے سے اپنا اور اس کا وجود ڈھانپ لیتی ہوں ۔ یہ کیسی پیاری خوشبو ہے جو میں اور میری منی شئیر کرتے ہیں ۔ ہاں شائد اسی کو میں امی کی خوشبو کہتی تھی ۔ تو کیا اب امی کی خوشبو میرے دوپٹے میں حلول کر گئ ہے ؟
میں مسکرا کے اپنی منی کا ماتھا چوم لیتی ہوں ۔